Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

ہونہار بیٹی اور گوریلا نماشہزادہ

ماہنامہ عبقری - دسمبر 2016ء

تھوڑے ہی دنوں میں نادیہ، گوریلے سے کافی مانوس ہوگئی۔ ایک دن نادیہ گوریلے سے کہنے لگے: مجھے اپنے ابو بہت یاد آرہے ہیں میں چند دن کیلئے گھر جانا چاہتی ہوں‘ گوریلے نے اسے جادو کی ایک انگوٹھی دی اور کہنے لگا‘ جب واپس آنا چاہو تو یہ انگوٹھی تمہیں مجھ تک پہنچادے گی‘

ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی شہر میں ایک دولت مندسوداگر رہتا تھا‘ اس کی تین بیٹیاں تھیں۔ بیوی فوت ہوچکی تھی‘ سوداگر کے اپنے جہاز تھے جو دوسرے ملکوں سےا س کا مال لایا کرتے تھے۔ ایک دن سمندر میں طوفان آیا اور بدقسمتی سے اس کے سارے جہاز ڈوب گئے۔ اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ رہی۔ اس نے اپنا عالی شان گھربیچ دیا اور شہر سے دورایک ٹوٹا پھوٹا سا مکان خرید لیا۔ جب اس کی بیٹیوں نے یہمکان دیکھا تو دونوں بڑی بیٹیوں نے کہا کہ ہم اس چھوٹےس ے مکان میں نہیں رہ سکتیں۔ چھوٹی بیٹی نادیہ بہت سمجھ دار تھی اس نے بڑی بہنوں سے کہا کہ ہمیں ایسی باتیں کرکے ابو کا دل نہیں دکھانا چاہیے‘ مجبوراً وہ سب اسی مکان میں رہنے لگے۔
ایک سال گزر گیا، ایک دن سوداگر کو یہ خوشخبری ملی کہ اس کا ایک جہاز جو طوفان سے بچ گیا تھا مال لے کر آرہا ہے۔ سوداگر فوراً بندرگاہ پر جانے کیلئے تیار ہوگیا، چلتے وقت بڑی بیٹی نے فرمائش کی ’’میرے لیے ریشمی کپڑوں کے دو جوڑے لیتے آئیے‘ منجھلی بولی: میرے لیے ایک پیاری سی شال‘ سوداگر نے نادیہ کی طرف دیکھا تو وہ بڑے پیار سے بولی: ابو! آپ خیریت سے واپس آجائیں‘ میرے لیے یہی کافی ہے۔ ہاں! ہوسکے تو گلاب کا ایک پھول لیتے آئیے گا۔ سوداگر یہ سن کر بہت خوش ہوا اور سفر پر روانہ ہوگیا جب وہ بندرگاہ پر پہنچا تو اسے پتہ چلا کہ اس کا جہاز سمندری ڈاکوؤں نے لوٹ لیا ہے یہ سن کر اس کا دل ٹوٹ گیا۔ وہ اپنی بدقسمتی پر آنسو بہاتا ہوا واپس چل دیا۔ ابھی وہ راستے ہی میں تھا کہ زوردار آندھی چلنے لگی‘ تھوڑی ہی دیر میں بارش شروع ہوگئی‘ سوداگر نے گھوڑے کی رفتار تیز کردی‘ تھوڑی دیر کے بعد برف باری شروع ہوگئی‘ تو وہ بہت پریشان ہوا۔ اس ویران علاقے میں طوفان سے بچنے کیلئے کوئی جگہ نہ تھی‘ وہ پریشانی کی حالت میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ دور اسے ایک قلعہ دکھائی دیا۔ اس نے گھوڑے کا رخ قلعے کی طرف موڑ دیا جب وہ قلعے کے پاس پہنچا تو وہاں کوئی بھی نہیںتھا۔ پہلے تو وہ بہت گھبرایا مگر تھکن اور سردی سے اس کا بُرا حال تھا۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ قلعے میں داخل ہوگیا۔ قلعے کے تمام کمرے روشنیوں سے جگمگارہے تھے۔ ضرورت کی ہر چیز موجود تھی مگر کوئی آدمی نہ تھا۔ سوداگر اونچی آواز میں پکارنے لگا: کوئی ہے‘ کوئی ہے؟ لیکن کوئی جواب نہ ملا۔ ایک کمرے میں شاندار بستر بچھا ہوا تھا۔ سوداگر اس پر لیٹتے ہی گہری نیند سوگیا۔ صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پھٹے پرانے کپڑوں کی جگہ اب اس کے جسم پر نہایت خوبصورت کپڑے تھے۔ ایک کمرے میں میز پر گرم گرم ناشتہ پڑا ہوا تھا۔ اس نے مزے سے ناشتہ کیا اور قلعے سے باہر آگیا۔ قلعے کی دیوار کے پاس اسے گلاب کا ایک پودا نظر آیا تو اسے چھوٹی بیٹی کی فرمائش یاد آگئی۔ وہ فوراً آگے بڑھا اور گلاب کا ایک پھول توڑ لیا۔ اسی وقت پیچھے سے ایک خوفناک آوازآئی۔ میں نے تمہیں سونے کیلئے جگہ دی‘ پہننے کو نئے کپڑے دئیے‘ مگر تم پھر بھی چوری سے باز نہ آئے۔ سوداگر نے جلدی سے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو ایک خوفناک گوریلا اسے گھور رہا تھا۔ اس کے جسم پر سیاہ گھنے بھال تھے اور منہ میں لمبے لمبے دانت‘ سوداگر اسے دیکھتے ہی خوف سے تھر تھر کانپنے لگا‘ میں تمہیں صرف ایک شرط پر چھوڑ سکتا ہوں کہ تم جب اپنے گھر پہنچو تو سب سے پہلے جس انسان پر تمہاری نظر پڑے‘ اسے میرے پاس لانا ہوگا‘ سوداگر بہت گھبرایا ہوا تھا‘اس نے جان بچانے کیلئے وعدہ کرلیا اور گھر کی طرف چل دیا۔ جب گھر پہنچا تو اتفاق سے اس کی نظر سب سے پہلے نادیہ پر پڑی۔ سوداگر بہت پریشان ہوا‘ نادیہ اس کی پریشانی بھانپ گئی۔ اس نے باپ سے پریشانی کا سبب پوچھا سوداگر نے پیاری بیٹی کے مجبور کرنے پرسارا واقعہ سنا دیا اور بولا: میں یہ وعدہ پورا نہیں کرسکتا‘ اپنی پیاری بیٹی کو گوریلے کے حوالے نہیں کرسکتا۔ نادیہ نے باپ کو تسلی دی اور کہا: ابو! انسان کو اپنا وعدہ ضرور پورا کرنا چاہیے‘ بیٹی کے اصرار پر سوداگر نے اسے گوریلے کے قلعے تک پہنچادیا۔ جب وہ قلعے کے اندر گئی تو اسے کوئی نظر نہ آیا اس نے سارا قلعہ چھان مارا‘ جب بہت تھک گئی تو آرام کرنے کیلئےا یک کمرے میں گئی وہاں ایک نہایت خوبصورت بستر بچھا ہوا تھا۔ نادیہ اس پر سوگئی۔ اسی طرح کافی دن گزر گئے‘ اسے جب بھوک لگتی‘ وہ کھانے کی میز پر پہنچ جاتی‘ جہاں پہلے ہی سے کھانے پینے کی چیزیں پڑی ہوتیں۔ ایک دن جب وہ ناشتہ کرنے کیلئے
آئی تو گوریلا میز کے سامنے بیٹھا اس کا انتظارکررہا تھا۔ نادیہ اسے دیکھتے ہی ڈر گئی‘ گوریلے نے کہا‘ ڈرو نہیں‘ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا‘ یہ سن کر نادیہ کا خوف کچھ کم ہوا تو وہ اکٹھے ناشتہ کرنے لگے۔ تھوڑے ہی دنوں میں نادیہ، گوریلے سے کافی مانوس ہوگئی۔ ایک دن نادیہ گوریلے سے کہنے لگے: مجھے اپنے ابو بہت یاد آرہے ہیں میں چند دن کیلئے گھر جانا چاہتی ہوں۔ گوریلے نے اسے جادو کی ایک انگوٹھی دی اور کہنے لگا‘ جب واپس آنا چاہو تو یہ انگوٹھی تمہیں مجھ تک پہنچادے گی‘ نادیہ جب گھر پہنچی تو اس کے ابو نے اسے گلے لگالیا‘ اپنی پیاری بیٹی کو گھر واپس دیکھ کر سوداگر بہت خوش ہوا۔ نادیہ اپنے گھر رہنے لگی‘ یونہی دن گزرتے گئے‘ نادیہ آہستہ آہستہ بھول گئی کہ اس نے گوریلے سے جلد واپس آنے کا وعدہ کیا تھا۔ ادھر گوریلا‘ نادیہ کے جانے کے بعد بہت اداس رہنے لگا۔ اس کی صحت بھی اب پہلے جیسی نہ رہی۔ نہ تو وہ سوتا اور نہ ہی کچھ کھاتا۔ بس ہر وقت نادیہ کو یاد کرتا رہتا۔ جب ایک دن شام کے وقت نادیہ اپنے گھر والوں کیلئے کھانا پکارہی تھی تو چاند کی روشنی سے اس کی انگوٹھی چمکنے لگی۔ اسی وقت اسے گوریلے سے کیا ہوا وعدہ یاد آگیا۔ گوریلے کی یاد آتے ہی اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا‘ اوہ! اتنا اچھا دوست‘ ایسا ہمدرد اس دنیا میں اور کہاں ملےگا؟ اس کو احساس ہوا کہ گوریلا بہت اداس ہوگا‘ مجھے ابھی اس کے پاس جانا چاہیے‘ یہ کہتے ہی وہ قلعے کی طرف چل پڑی‘ جب قلعے میں پہنچی تو گوریلا اسے کہیں نظر نہ آیا۔ نادیہ نے قلعے کے تمام کمروں میں اسے تلاش کیا‘ جب گوریلا نہ ملا تو وہ اسے قلعے سے باہر ڈھونڈنے نکل پڑی۔ آخرکار اسے گوریلا ایک جگہ لیٹا ہوانظر آیا۔ نادیہ اس کےپاس آئی۔ اس نے دیکھا کہ گوریلے کی آنکھیں بند تھیں۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوچکے تھے۔ وہ جلدی جلدی اس کے ہاتھ پاؤں دبانے لگی‘ تھوڑی دیر کے بعد گوریلا ٓآہستہ سے بولا: میں تو اتنا بدصورت ہوں‘ تم کیوں میرے ہاتھ پاؤں دبارہی ہو؟ نادیہ نے جواب دیا: اصل خوبصورتی دل کی ہوتی ہے اور تم دل کے بہت اچھے ہو‘ یہ کہتے ہوئے نادیہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ جب نادیہ نے اپنی آنکھیں کھولیں تو اپنے سامنے ایک نہایت خوبصورت شہزادے کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ نادیہ کے پوچھنے پر شہزادے نے بتایا دراصل! ایک ظالم جادوگرنی نے جادو سے مجھے گوریلا بنادیا تھا۔ تم نے میری خاطر آنسو بہا‘ تو جادو کا اثر ختم ہوگیا۔ کچھ دنوں کے بعد نادیہ کی شادی شہزادے سے ہوگئی اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے۔(انتخاب:سانول چغتائی‘ رانجھو چغتائی‘ اماں زیبو چغتائی‘ بُھورل چغتائی‘ احمد پور شرقیہ)

Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 347 reviews.